راکعہ رضا نے اپنی کہانیوں کو ’’خودکلامی‘‘ سے تعبیر کیا ہے گو کہ یہ ایک ادیبہ کی ’’خود کلامیاں‘‘ ہیں مگر اِ س کے باوجود کہانیاں مجموعی معاشرتی شعور کی نمائندگی بھی کرتی ہیں۔ لکھنے والے کی فکر، نظریہ اورفلسفہ اس کی تحریروں سے جھلکتا ہے۔ راکعہ رضا کی کہانیوں میں ان کی فکر کبھی نوراموچی، نظریہ پروفیسر نسیم حیات اورفلسفہ خالہ حمیداں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مصنفہ چونکہ خود ماہرِ نفسیات ہیں اس لیے ان کے تخلیق کردہ کرداروں، ان کے خدوخال، چال ڈھال اور بول چال میں نفسیاتی پہلو پر دسترس دکھائی دیتی ہے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لوگ ان کی کہانیوں میں پوری شدومد سے جلوہ گر ہوتے ہیں۔
’’آخری سیڑھی‘‘ کی کہانیوں کے موضوعات اوران کی نسبت ایسی ہے کہ اسے نسلِ نو (ٹین ایجر) کے لیے زیادہ موزوں قراردیا جا سکتا ہے مگر اسے بچے بھی کسی حد تک سمجھ سکتے ہیں۔ یوں تو کتاب کی سبھی کہانیاں بہترین ہیں مگر ’’ردّی کاغذ‘‘، ’’دُم کے بغیر‘‘، ’’آخری سیڑھی‘‘، ’’دو گھر چھوڑ کر ‘‘، ’’میرا پاکستان‘‘، ’’ہوا رخ‘‘، ’’رسّی‘‘،’’ سادہ پیپر‘‘، اور’’حفاظت کا گُر‘‘ توجہ طلب کہانیاں ہیں۔
Reviews
There are no reviews yet.