Mirza Ghalib ka Roznamcha
₨450.00
نام کتاب: مرزا غالب کا روزنامچہ
Writer: Khwaja Hassan Nizami
مصنف: خواجہ حسن نظامی
Pages: 112
Language: Urdu
Publisher: Darulmushaf
شہنشاہ غزل مرزا اسداللہ خان غالب کی زندگی پر ایک نایاب کتاب
اس روزنامچے کےمئولف خواجہ حسن نظامی اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :
” یہ روزنامچہ کہاں سے آیا۔۔۔؟لوگوں کو حیرت ہوگی کہ غالب کا یہ روزنامچہ کہاں سے آگیا؟ پہلے تو کبھی اس کا ذکر نہیں سنا تھا۔ اس واسطے میں اس حقیقت کو بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ غالب نے غدر(1857ء) کا کوئی خاص روزنامچہ نہیں لکھا تھا، نہ غالباً ان کو روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ میں نے یہ روزنامچہ خود تصنیف کیا ہے اور لطف یہ ہے کہ اس تصنیف میں ایک حرف بھی میرا نہیں ہے، سب غالب کے قلم سے نکلا ہوا ہے۔اس معمہ اور چیستاں کا حل یہ ہے کہ غالب کے خطوط میں جہاں جہاں غدر کا ذکر ضمناً آیا تھا، میں نے پوری تلاش ومحنت سے اس کو الگ کرلیا، اور ایسے طریقہ سے چھانٹا کہ روزنامچہ کی عبارت معلوم ہونے لگی۔بس میرا کمال اسی قدر ہے کہ میں نے بغیر پیشی الفاظ کے خطوط کو روزنامچہ بنا دیا اور کوئی شخص اس کو پڑھ کر خطوط کا شبہ نہیں کرسکتا۔
غالب کے مکتوبات مطبوعہ وغیر مطبوعہ میں غدر کی کیفیت ایسی دبی ہوئی پڑی تھی کہ کوئی شخص اس کی خوبی واہمیت کو محسوس نہ کرسکتا تھا اور خطوں کے ذیل میں ان عبارتوں کو بھی بے توجہی سے پڑھ لیا جاتا تھا۔
میں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اردو زبان میں غدر دہلی کی یہ لاثانی تاریخ جو موتیوں سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے، اس طرح دبی ہوئی نہ پڑی رہے۔ اس لیے اس کو علیحدہ کرنا شروع کیا اور کہیں کہیں اپنے حاشے بھی لکھے تاکہ آج کل کے لوگوں کو دہلی کی بعض مقامی باتوں سے واقفیت ہوجائے اور جس چیز کا مطلب سمجھ میں نہ آئے، حاشیہ کی مدد سے سمجھ لیں۔
غالب کے روزنامچہ میں ایک حرف بھی فرضی نہیں ہے بلکہ چشم دید اصلی حالات کی تصاویر ہیں۔ اورپھر بیان ایسا صاف ستھرا اور اعلیٰ ہے کہ میری عبارت اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔غالب کے اس روزنامچہ سے دہلی کی عمارتوں، دہلی کے نامور آدمیوں، دہلی کی قدیمی معاشرت، دہلی کے پرانے احساسات کا اتنا بڑا تاریخی ذخیرہ حاصل ہوتا ہے جو کسی غدر دہلی کی تاریخ میں نہیں ملے گا۔ایک بات نہایت ہی اہم اس روزنامچہ سے ظاہر ہوگی اور وہ یہ ہے کہ غدر کی تاریخ لکھنے والے عموماً تو انگریز تھے اور یا انگریزوں کے زیر اثر مؤرخ، اس واسطے اس میں واقعات کا ایک ہی رخ دکھایا گیا ہے۔مگر غالب کے روزنامچہ سے تصویر کا دوسرا اور بہت ہی پوشیدہ رخ بھی ظاہر ہوجائے گا اور مؤرخوں کو اس سے بہت مدد ملے گی۔
ایک مشکل کام روزنامچہ کی تیاری میں یہ پیش آیا کہ بعض مکتوبات پر غالب نے تاریخ اور سنہ لکھے ہیں اور بعض پر صرف تاریخ اور دن ہے مگر سنہ نہیں لکھا اور بعض پر نہ سنہ ہے نہ تاریخ ہے، اس واسطے ترتیب کا فرض ادا کرنامشکل ہوگیا۔ کیونکہ کچھ معلوم نہیں ہوسکتا کہ پہلی عبارت کون سی ہے اور دوسری کون سی؟ ناظرین خود اپنی سمجھ سے اس مشکل کو حل کرسکتے ہیں۔
دوسری مشکل،اس روزنامچہ میں یہ ہے کہ بعض مضامین اور واقعات مکرر بلکہ کئی کئی بار لکھے گئے ہیں، خصوصاً پنشن کے حالات بہت جگہ آئے ہیں۔ ان کو میں نے اس لیے قائم رکھا اور کم نہیں کیا کہ گو واقعہ ایک ہی ہے مگر طرزِ ادا میں ہر جگہ نئی قسم کی خوبی ہے اور غالب نے اپنے ہر مخاطب کو ایسے لطف سے کیفیت لکھی ہے کہ نیا مضمون بنا دیا ہے۔ اور پھر کمال یہ ہے کہ واقعات میں کمی بیشی نہیں ہونے دی، جس سے غالب کی صدق بیانی پر پوری روشنی پڑتی ہے۔
حسن نظامی
1922ء
Reviews
There are no reviews yet.