کتاب : پڑاوْ (سفرنامہ)
مصنفہ: بینش ارشد
تبصرہ: قرةالعین حیدر
پڑاوْ لائبیریا کا سفرنامہ ہے۔ وہی لائبیریا جو افریقہ میں بحرِ اوقیانوس کے کنارے آباد ہے اور ایک زمانے میں کامن ویلتھ کالونی تھا۔ میری نظر سے اب تک لائبیریا کا سفرنامہ نہیں گزرا، اس لئے شنید ہے کہ پاکستان میں اور خاص طور پر اردو زبان میں لائبیریا کے متعلق یہ پہلا سفرنامہ ہے۔ سب سے پہلی بات جو آپ لوگوں کے گوش گزار کرنی ہے کہ یہ کتاب بروز جمعہ 28 جون سے مارکیٹ میں دستیاب ہوگی اور بطورِ لکھاری بینش ارشد کی یہ پہلی کتاب ہے۔ یوں بھی ہمارا خطہ سفرنامہ نگاری کے حوالے سے بہت زرخیز ہے اور بینش ارشد اس میں ایک خوشگوار اضافہ ہیں۔ کتاب کے مطالعہ میں مصنفہ نے فِکشن کا سہارا بالکل نہیں لیا انہوں نے صاف گوئی سے لائبیریا کا احوال، مذہب، موسم، حدود اربعہ، رسوم و رواج، تاریخ، تہذیب بیان کر کے قارئین کو اس ملک کے بارے میں مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ وہ معلومات ہیں جو انہوں نے وہاں اپنے تین سالہ قیام کے دوران اکٹھی کی ہیں۔
اس کتاب کو پڑھنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ اس کتاب کا رنگین سرورق ہے جو کہ بےحد خوبصورت اور دلچسپ ہے۔ اس خوبصورت سرورق کو ڈیزائن کرنے کیلئے طارق بھائی کو الگ سے داد جس کی دلکشی قاری کو کتاب پڑھنے پر اکساتی ہے۔ دوسری وجہ نئی مصنفہ کی پہلی کتاب جو خود کو پڑھوانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس سفرنامے کے 19 ابواب ہیں۔ محترمہ بینش نے نہ صرف لائبیریا ہی نہیں بلکہ جمہوریہ گِنی اور لبنان کے متعلق بھی وافر معلومات چند ابواب میں دی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گِنی لائبیریا کا ہمسایہ ملک ہے اور دونوں طرف لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ دوسرا لبنان کے بارے میں معلومات کی وجہ ان کی ایک ہمسایہ خاتون مادام تعمیم ہیں۔
مصنفہ نے اپنے سفر نامے کا آغاز افریقہ سے پہلا تعرف ہجرتِ حبشہ اور حضرت بلالؓ سے کیا ہے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس سفرنامے میں لائبیریا کے متعلق تاریخی حوالے لازماً شامل ہونگے، اور ایسا ہی ہوا۔ حیاتیاتی طور پر افریقی لوگوں کے سروائیول کیلئے قدرت نے ان کی رنگت گہری رکھی ہے جو انہیں سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچاتی ہے۔ افریقہ کے موسمی حالات وہاں کے رہائشیوں کیلئے بےرحم تھے، مزید ستم ظرفی جو دوسرے برِاعظموں کے لوگوں نے افریقی باشندوں کے ساتھ کی، یہ انہیں غلام بنا کر اپنے علاقوں میں لے گئے۔ مصنفہ بتاتی ہیں “1526ء میں پہلا بحری جہاز افریقی غلاموں کو لے کر امریکہ گیا تھا۔ یہ شاید غلاموں کے حوالے سے تاریخ کی سب سے بڑی تجارت تھی جو افریقہ سے شروع ہوئی، افریقی لوگوں کو جبرا غلام بنا کر پھر ان کے پیاروں سے الگ، اتنی دور جہاں سے ان کی بازگشت بھی سنائی نہ دے، جیتے جاگتے انسانوں کو نیلام منڈیوں میں بھیجنا ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ مہذب دنیا کے نمائندوں نے باقاعدہ منصوبے بنا کر ان وحشی اور تہذیب سے بیگانہ لوگوں کو اغوا کیا اور بیچ دیا، اس طرح جیسے شکار کرنے آئے ہوں۔” لائبیریا سے غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد یورپ برطانیہ اور امریکہ پہنچائی گئی۔
مصنفہ کا وہاں قیام لائبیریا کے دارلحکومت “مونروے” میں تھا۔ نئے ماحول، نئی آب و ہوا میں جب ان کا تعلق کچھ پاکستانی خاندانوں کے ساتھ بڑھا تو ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں کھانے کے دوران سرونگ ٹرے کے رنگین کاغذ سے لائبیریا کے متعلق جاننے اور اس کی سیاحت کا شوق بڑھا کیونکہ وہ محض رنگین کاغذ نہ تھا ملکی معلومات سے مزین بروشر تھا۔ کس قدر خوبصورتی سے اپنے ملک کی تاریخ سے آشنا کرنے کا طریقہ اپنایا گیا ہے جو ملکی تاریخ، کلچر اور تہذیب کی کھوج لگانے کی طلب بڑھا دے۔ لائبیریا 15 کاوْنٹیوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک سیکولر ملک ہے جس کی اکثریت آبادی مسیحی ہے، قومی زبان انگریزی ہے اس کے علاوہ مختلف قبائلی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ امریکی مفاد یہاں ہیرے اور سونے کی کانوں سے بھی وابستہ رہا ہے، اور ابھی بھی باہر کی کمپنیاں یہاں کھدائی کا سارا کام سنبھالتی ہیں۔ حکومت کو صرف دو فیصد کے حساب سے منافع دیا جاتا ہے باقی کا سارے کا سارا مال امریکہ لے جاتا ہے۔ لائبیریا ہر طرح سے زرخیز ملک ہے اور اس کی معیشت کا انحصار سونے، ہیرے اور ربڑ کی پیداوار پر کرتا ہے۔ یہ غریب ملک ہے لوگ کسی بھی چیز، کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے کے لیے کوئی خاص تکلف نہیں کرتے۔ عام آبادی لکڑی اور ٹین کی چھتوں والے گھروں میں رہتی ہے یہاں کی آب و ہوا انتہائی معتدل ہے نہ یہاں زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ سردی۔ یہاں پر صرف دو موسم پائے جاتے ہیں بارش کا موسم اور سوکھے کا موسم۔ متوسب طبقہ یہاں ناپید ہے۔ یہاں پر تن ڈھکنے کیلئے لنڈا ہی کام آتا ہے۔ مسلمان سمیت دیگر مذاہب کے لوگ بھی ایکسٹرا میریٹل ریلیشن شپ رکھتے ہیں۔ اکثریت کو شادی کرنے کا خیال کئی بچوں کی پیدائش کے بعد آتا ہے۔ یہاں پر چائلڈ لیبر بہت زیادہ ہے۔ مزدوری کر کے بچے اپنا خرچہ خود اٹھاتے ہیں۔ یہاں کی خواتین فیشن ایبل ہیں۔ رنگ برنگے ملبوسات، نقلی وگی، میک اپ اور آرائش کے سامان کی شوقین ہیں۔ بھارتی اور لبنانی لوگوں کی کثیر تعداد وہاں آباد ہے۔ یہاں کے لوگ موسیقی کے دلدادہ ہیں اور بھارتی موسیقی گانے بہت مقبول ہے اور ان پر ناچنا عام ہے۔
مصنفہ نے یہاں جن جن علاقوں کی سیاحت کی اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ میں بار بار گوگل سے ان جگہوں کے بارے میں معلومات لیتی رہی اور تصاویر دیکھتی رہی۔ 1979 میں تعمیر کئے گئے ہوٹل افریقہ ٹراپیکانہ بیچ کا زکر کرنا ضروری ہے۔ یہ عالی شان ہوٹل انٹرنیشنل افریقہ کونسل کے اجلاس کیلئے تعمیر کیا گیا۔ جو بعد میں ہوٹل ڈکور کی طرح خانہ جنگی کی نظر ہوگیا۔ اس ہوٹل اور اس کے بیچ پر پاکستانی فون کا قیام بھی رہا ہے جو یو این امن فوج کے طور پر کئی سال وہاں کام کرتی رہی۔ لائبیریا میں Boomy Blue Lake کا زکر مصنفہ نے بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔ یہ جھیل 1990 میں لوہے کی کان کے بیٹھ جانے سے وجود میں آئی ہے۔ اس جھیل کی گہرائی پاک فوج کے غوطہ خوروں نے 300 فٹ کنفرم کی تھی۔ یہ جھیل ارد گرد کے علاقے کو پینے کا پانی فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ولکی فارم کا زکر ہے جو 1998 میں وہاں کے کاروباری اور سیاسی شخصیت Benoni Wilfred Urey نے 400 ایکڑ میں تعمیر کروایا ہے۔ اس باب میں مصنفہ نے ان کے زندگی کے حالات بیان کئے ہیں۔ اس فارم میں کئی ریستوران، کلبز، سوئمنگ پولز کے علاوہ گھوڑوں کے اصطبل، مرغی، ٹرکی، مگرمچھ، شتر مرغ اور مچھلیوں کے فارمز بھی ہیں۔
لائبیریا، بادل اور سمندر ایک ایسی مثلث ہے جو ایک دوسرے کے بنا ادھوری ہے۔ بادلوں کا گہرا عشق سمندر اور لائبیریا سے آسمان جھکا ہوا لگتا ہے اور بادل اتنا قریب محسوس ہوتے ہیں کہ سارا منظر کسی تھری ڈی پینٹنگ کی مانند حرکت کررہا ہو۔ اس کتاب میں معلومات ہے، جذبات ہیں اور بہت شاندار منظر کشی ہے جو آپ کو ٹھنڈی سمندری ہواؤں کی سرزمین لے جاتی ہے جس کے اندر فطری لاپرواہی ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.