بچوں کے ادب میں مزاح نگاری کے لیے عموماً کردار تخلیق کیا جاتا رہا ہے، یہ مزاحیہ کردار ’’حافظ جی‘‘ از سعید لخت سے لے کر ’’تیز چچا گام‘‘ از محمد فہیم عالم تک اپنی حماقتوں اورشرارتوں سے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے ہیں اور بکھیر رہے ہیں۔ نائلہ صدیقی نے کسی کردار کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے روزمرہ کے موضوعات پر طبع آزمائی کرکے شگفتہ کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ ان کہانیوں کو طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے خانے میں بھی فٹ کیا جا سکتا ہے۔ نائلہ صدیقی نے جہانِ مزاح آباد کرنے کے لیے واقعاتی اور لفظی مزاح دونوں کا سہارا لیا ہے۔ ’’پڑیے گر بیمار‘‘ میں کہانیوں کے عنوانات میں رعایتِ لفظی کو خوب صورت انداز میں برتا گیا ہے۔ ’’سایہ ہم سایہ‘‘ ، ’’جاسوسی کا اشتیاق‘‘، ’’آہستہ خالہ نے قورمہ پکایا‘‘(آہستہ خالہ دراصل شائستہ خالہ ہیں)۔
اس مختصر سے دیباچے میں حوالے کے لیے شاید زیادہ گنجائش نہیں ہے، صرف ایک ٹکڑا پیش کروں گا، اسے دیگ کے ایک چاول سے تعبیر کیجیے کہ باقی دیگ کتنی مزے دار ہوگی۔
’’ارے بھئی! آپ کے دوست کے بچے تو بہت بد تمیز ہیں، نہ کوئی شرارت کرتے ہیں نہ کوئی ہڑونگا پن، آرام سے رہتے ہیں، کھانے کی میز پر سلیقے سے کھاتے ہیں، چیزیں گرانا پڑانا، شور مچانا، ہلڑ بازی کچھ بھی تو نہیں کرتے۔‘‘ بیگم انصار نے اپنے شوہر سے کہا۔
اس ٹکڑے میں لفظ ’’بدتمیز‘‘ پر غور کریں اور عبارت کو اس کے ساتھ جوڑ کر دوبارہ پڑھیں۔
Reviews
There are no reviews yet.