ناول ”سلوٹ زدہ خواب“
مصنف ”ابن عبداللہ“
تبصرہ نگار”عنایہ گل“
پچھلے دنوں کتاب گھر پیج پر سلوٹ زدہ خواب ناول کا لنک اور ساتھ “میں تنہائی کی تپتی دوپہروں اور لڑکیوں کی اداس ہوتی نگاہوں میں ہمیشہ زندہ رہوں گا۔” یہ لائن دیکھی تو فورا دل و دماغ تحریر پڑھنے کی خواہش ظاہر کرنے لگے۔بات خوابوں کی ہے تو اس خواب کو پہلے پایہ تکمیل پہنچانے کا سوچا۔ کتاب گھر کا شکریہ ڈیجیٹل دور میں معیاری تحریریں آنلائن فراہم کرنے کے لیے۔
”سلوٹ زدہ خواب“ اس تحریر نے اداسی کا پیراہن اوڑھ رکھا ہے،خواب کا، انتظار کا یا محبت کا؟ شاید کہ احساس کا۔ اداسیوں اور خوابوں کی یہ داستاں پڑھنے کے لیے احساس کی طالب ہے۔ اداسیوں کا پیراہن اوڑھے خوابوں کی یہ داستاں قاری کو اک اور جہاں میں لے جاتی ہے۔
ہم سبھی خواب ہیں۔اوریہ ہم سب کی داستاں ہے۔کیونکہ ہم میں سے ہر شخص اک خواب ہے۔خواب فقط مرد و زن کی محبت کے نہیں ہوتے ہیں۔خواب تو جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے اور انکی جدوجہد میں گزری زندگی کے ہر پہلو میں لپٹے ہیں۔ہم مڈل کلاس لوگوں کی زندگی دنیا میں آنکھ کھولنے سے لے کر منوں مٹی تلے سونے تک خواب دیکھنے، انہیں پانے کی تگ و دو تو کبھی ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سمیٹے زخمی آنکھوں اورمردہ خوابوں کا بوجھ اٹھائے سانسوں کی ڈور ختم ہونے کے انتظار میں گزرتی ہے۔ اداسی، خوشی،انتظار، زندگی، موت یہ سبھی ذائقے ہیں۔اور ان سب ذائقوں کو چکھنے کی حس الگ ہوتی ہے۔ اور جب وجود احساس سے عاری ہو جائے تو یہ حسیں ختم ہو جاتی ہیں۔اس تحریر کو دل سے پڑھیے آپکو اپنے خواب کہیں تکمیل پاکر مسکراتے، کہیں ٹوٹ کر بکھرے کانچ کی مانند روح کو چھلنی کرتے،تو کہیں مردہ ہو کر کندھوں پہ تاحیات جنازوں کا بوجھ اٹھائے محسوس ہوں گے۔اداسی کے رنگ لیے یہ تحریر کہیں خوابوں کو آپکے سامنے لا کھڑا کرے گی۔کہیں چہرے پہ جوانی کی چمک میں بڑھاپے کی جھریاں عیاں ہوں گی۔بالوں کی سیاہی میں سفیدی چمکتی دکھائی دے گی۔ یہ ان لوگوں کی داستاں ہے جو محفل میں تنہائی ، شہنائیوں میں بین ، قہقہوں میں سسکیاں اورخاموشی میں چیخیں سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تحریر کی منظر نگاری اس قدر حسیں ہے کہ آپکو سبھی مناظر آنکھوں کے سامنے ہوتے نظر آتے ہیں۔ہر لفظ اس قدر حسیں ہے کہ قاری کو سحر میں جکڑ لے۔
“بھلا کہانیوں کے کردار بھی سانس لیتے ہیں۔لیکن اب اسے یقین ہونے لگا تھا کہ کچھ کہانیوں میں واقعی کردار سانس لیتے ہیں۔” اور اس تحریر کے ان الفاظ کو اس تحریر نے ثابت بھی کیا ہے۔واقعی کردار زندگی جیتے ہیں۔ان کرداروں نے اداسی ، انتظار،محبت ،جدائی،موت اور پھر موت سے زندگی کے سفر کو جیا ہے۔
مختصر سے کرداروں کے ساتھ یہ تحریر دنیائے اردو ادب میں اک تاحیات دمکتا ستارہ ہے۔ یہ آیت کی زندگی کو جینے کی تمنا لیے مٹی کے ڈھیر تلے سو جانے کی داستاں ہے۔حیدر کی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے پھر محبت کی وادیوں میں قدم رکھ کر مسکراہٹوں کے جہاں میں بسنے کی خواہش لیے قبر کی آغوش میں جا لیٹنے کی داستاں ہے۔
شفاء کی معصومیت پھر والدین کی رضا سے زندگی کی نئی راہوں کا خواب دیکھنے اور پھر ان ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں لیے جینے کی داستاں ہے۔
خیام کی اداسی ، انتظار اور خوابوں کی داستاں۔۔۔۔جو خوابوں کو اداسی کا لباس اوڑھا کر لفظوں میں سموتا ہے۔اداسی کے ذائقے چکھنے کو، ان ذائقوں کو جلا بخشنے کو کہیں جدائی تو کہیں موت کا سندیسہ تھماتا ہے۔پھر خود محبت کی وادی میں پہلا قدم رکھتے ہی ہجر کا دردلیے انجان راہوں کا مسافر بننے کی داستاں ہے۔جہاں موت کو گلے لگائے پھر سے جینے کی امنگ لیے اداسیوں کی یہ داستاں خوشیوں کی نوید پہ اختتام پذیر ہوتی ہے۔
کچھ لفظ ہم اپنی کیفیت بیاں کرنے کو لکھتے ہیں۔مگر وہی درد کوئی اور بھی کسی اور صورت میں سہہ رہا ہوتا ہے۔اور درد کو لفظوں کی زبان مل جائے تو دل کا درد کم نہیں ہوتامگر آندھیوں کے غبار کم ہوجاتے ہیں۔ اور شفاء نے خیام کے درد بھرے لفظوں سے ہی زندگی کی جانب خود بھی قدم بڑھایا اور خیام کو بھی واپس زندگی کی جانب کھینچ لائی۔
مصنف کی یہ پہلی تحریر ہی اس قدر مثبت تاثر چھوڑ گئی ہے۔کہ مزید تحریروں کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔دعا ہے مصنف کا قلم یونہی رواں رہے۔اور مزید شاہکار تحاریر پڑھنے کو ملیں۔
دعا ہے رب کریم اداسیوں کو دور کرے،اور خوابوں کو پالینے کے لیے نیک نیتی سے جدوجہد کی ہمت دے آمین
تبصرہ نگار : عنایہ گل
Reviews
There are no reviews yet.