”حافظ صاحب! یہ معراج کی رات کیا ہوا تھا؟“
یہ جملہ سن کر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا، میں نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔
شام کا سورج غروب ہونے کو تھا۔ سورج کی سرخی اُفق کے کناروں پر پھیل رہی تھی، میں آج معمول سے پہلے ہی دفتر سے نکل آیا تھا۔ بازار سے گزرتے ہوئے چمن سویٹ پر نظر پڑی تو یاد آیا کہ ہمشیرہ نے سموسوں کی فرمائش کی تھی، چمن سویٹ پر آج معمول سے زیادہ رش تھا، شاید اس کی وجہ شب معراج تھی۔
خریدنے والوں کی باقاعدہ قطار لگی ہوئی تھی۔ میں بھی قطار میں لگ گیا کہ اچانک مجھے یہ آواز سنائی دی، وہ فیکا حلوائی تھا جو چمن سویٹ پر برسوں سے ملازم تھا، بچپن اس کے ہاتھ کے پکوڑے، سموسے اور کچوریاں کھاتے ہوئے گزرا۔
”چچا! اس وقت تو ذرا جلدی میں ہوں، نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے، آپ بھی مصروف ہیں، صبح دفتر جاتے ہوئے آپ کے پاس آؤں گا، پھر تفصیل سے عرض کروں گا۔“ میں نے کہا۔
”او جیوندا رے پتر! میں انتظار کروں گا۔او سلیم! حافظ پتر کو ذرا تازہ اور خستہ سموسے دینا، میری طرف سے ایک میٹھی چٹنی بھی اضافی دینا۔“ چچا فیکا نے آواز لگائی، میں مسکرا کر رہ گیا۔
صبح میں وعدے کے مطابق اُن کے پاس پہنچ گیا۔ چچا بالکل ان پڑھ تھے۔ اللہ کا خوف اور اس کے رسولﷺ سے عشق رکھتے تھے۔ بس یہی اُن کا کل ایمان تھا۔پانچ وقت کے نمازی تھے۔ میں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ انھیں آسان سے آسان انداز میں واقعہ معراج کی تفصیلات بتاسکوں۔ حضورﷺ کے اس عظیم الشان سفر کی روداد سن کر چچا کی آنکھیں بار بار بھیگ جاتیں، سنتے ہوئے اُن کے لبوں پردرود شریف ﷺ کا ورد جاری تھا۔ انھیں سفرِ معراج کے بارے میں بتا کر میرا بھی ایمان تازہ ہوگیا۔چچا فیکا سے ہی مجھے خیال آیا کہ واقعہ معراج کو انتہائی آسان اور عام فہم انداز میں لکھنا چاہیے، کہ جو تھوڑی بہت بھی اُردو پڑھنا جانتا ہو وہ آسانی سے پڑھ سکے اور جو پڑھ نہیں سکتا اُسے کوئی بچہ بھی پڑھ کے سنا دے تو وہ بآسانی سمجھ لے۔ یوں وہ خیال اس کتاب کی صورت منظرِ عام پہ آیا، اور اب اس کا تیسرا ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ الحمدللہ اس کتا ب کو اللہ تعالیٰ نے بڑی مقبولیت عطافرمائی۔ میں نے بازار کے بہت سے پھل فروشوں، ٹھیلے والوں، مزدوروں کو پیش کی، اُنھوں نے بآسانی پڑھ اور سمجھ لی۔ بہت سے قارئین نے اپنے گھر کے بزرگوں کو سنائی۔ الحمدللہ سبھی کوآسان انداز میں لکھی گئی اس کتاب سے واقعہ معراج کو جاننے اور سمجھنے میں آسانی ہوئی۔
قارئین کرام! یہ کوئی علمی یا تحقیقی کتاب ہرگز نہیں، اس میں دقیق و باریک ابحاث بھی شامل نہیں، آپ اسے اختلافات و دلائل سے بھی خالی پائیں گے۔ یہ تو ایک دیہاتی اور کم پڑھے لکھے مصنف کی طرف سے اپنے جیسے دیہاتیوں اور واجبی سی تعلیم والے عام مسلمان کے لیے لکھی گئی ایک عام سی کتاب ہے کہ ایک عام پڑھا لکھا آدمی اگر جانناچاہے کہ شبِ معراج کو کیا کیا واقعات پیش آئے تھے تو اُسے یہ کتاب پیش کی جاسکتی ہے۔
رسول اللہﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے کسی بھی گوشے پر قلم اٹھانے کی توفیق مل جانا بلاشبہ ایک بڑی سعادت ہے کہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ترجمہ: ”یہ وہ سعادت ہے جو آدمی اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں کر سکتا کہ جب تک بخشنے والا خدا یہ سعادت نہ بخشے۔“
دعا ہے کہ جس خدائے ذو الجلال کی توفیق سے یہ سعات ملی وہ اپنے ہاں اسے قبول فرمائے اور میرے لیے باعث شفاعت بنائے۔آمین!
محمد فہیم عالم
۱۱۔اکتوبر۲۰۲۳ء
Reviews
There are no reviews yet.